خطوط نگاری کا آخری سلطان۔۔۔۔

ویسے تو سلطان اختر نے اپنے ارد گرد ادب کی ایک خاص دنیا سجا رکھی ہے۔ آپ اس دنیا کو ایک فیملی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس فیملی میں بہت ہی کم اور چنندہ لوگ شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے میں بھی اسی قبیل سے ہوں جنہیں ناز ہے کہ سلطان اختر انہیں اپنے دوستوں میں شمار رکھتے ہیں۔ سلطان اختر  تہ در تہ اور پرت کھلنے والی شخصیت کا نام ہے۔ 
انہیں سفر کرنا پسند ہے سفر میں وہ امید کرتے ہیں کہ اچھے پکوان سے انہیں لطف اندوزی کا موقع ملے۔ ان کا خیال ہے کہ اچھی دوستی میں اچھے کھانوں کا بڑا رول ہوتا ہے اور ایک اچھی ضیافت کرنے والے انسان کا دل بھی بڑا ہوتا ہے۔ 
اس خیال میں بھی بڑی مضبوطی ہے جو حقیقت کے بہت قریب ہے۔ 
سلطان اختر کا ابتدائی ادب ایسے ہی ادبی اسفار پر مشتمل ہے۔اسفار کے اس سلسلے میں وہ ملک کے بڑے بڑے ادیبوں ناقدین سے نہ صرف ملے بلکہ انہیں شرف نیاز مندی اور محبتیں بھی حاصل ہوئیں۔ اسی دور میں انہوں نے خطوط نگاری بھی کی۔ یہ بات بڑی خوبصورت بھی ہے اور تھوڑی ناقابل یقین بھی کہ سلطان اختر مکتوب نگاری کے دور کے آخری آدمی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے واٹس ایپ اور میسنجر کے تیز رفتار زمانے میں جب مکتوب نگاری تقریبا اپنا دم توڑ چکی تھی۔ ان کے خطوط کا مجموعہ عنوان مشاہیر کے خطوط سلطان اختر کے نام  سے شائع ہوا اور ایک مجموعہ  نذیر فتح پوری بنام سلطان اختر بھی شائع ہوا۔ سلطان اختر نے بھرپور کوشش کی کہ وہ ہندوستان کے بڑے بڑے ادیبوں سے اپنے روابط قائم کر سکیں اور انہیں نبھا سکیں اسی سلسلے میں انہوں نے اردو ادب کے مشاہیر کو خطوط لکھے جن میں سے بہت سوں کے جواب انہیں موصول بھی ہوئے فی الحال یہ خطوط اور ان کا مجموعہ سلطان اختر کی ادبی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ یقینا ہونا بھی چاہیے سلطان اختر نے ہندوستان کے نامور ادیبوں کو نہ صرف والا نامے لکھے بلکہ ان سے جوابات بھی وصول کیے۔ اور ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ جن جن ادیبوں کو سلطان اختر کے خطوط موصول ہوئے انہوں نے اس بات کا اقرار بھی کیا ہے کہ اج کل خط کون لکھتا ہے؟! بہت کم خط آتے ہیں اوریہ بھی کہا کہ زندگی کے اخری دور میں سلطان اختر کے خط نے ان میں امید کی کرن بھی جگائی ہے۔ 
بہرحال خطوط کا زمانہ عملی طور پر ختم ہونے کے باوجود تاریخی ادبی اور تہذیبی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اگر اردو خطوط کا اغاز ابتدائے تاریخ میں سودا ناصح اور داغ غالب سے سمجھے جائیں تو اختتامی سلسلے کے  آخر میں سلطان اختر کا نام ضرور رہے گا۔ اس کی وجہ بس اتنی سی ہے کہ خطوط نگاری کے اخری دور کے دو مجموعے سلطان اختر کے نام ہیں۔ 
مشاہیر کے خطوط سلطان اختر کے نام میں بالترتیب درج ذیل مشاہیر کے خطوط شامل ہیں:
آفتاب احمد آفاقی ،ابراهیم درویش، الف انصاری، ابن کنول، ارشد صدیقی، احمد الیاس، احمد کلیم فیض پوری، اختر الواسع، اسحاق ملک، اسلم حنیف، اقبال مجید، النجم عرفانی، ایس ایس علی، بابا سائیں، تصور ہربنس سنگھ، چشمه فاروقی، حیدر بیابانی، خالد سرحدی، خلیل تنویر، راشد عزیز، رام پر کاش کپور، رتن سنگھ، رضوان انصاری، رشید افروز، زکریا ورک، زیبا جونپوری، سلطان اختر پیل، شارب ردولوی، شاکر شیخ، شبیر آصف، شمس الرحمن فاروقی، شمیم اختر، شہناز کنول غازی، صبیحہ انور، ظفر ہاشمی، عابد سبیل، سید عبدالباری شبنم سبحانی، عبدالقادر فاروقی، عبید اللہ چودھری، عبدالمجید بانگل، عبداللطیف سبحانی، غلام مصطفی رضوی، قیصر واحدی، کلدیپ نیر، گلزار دہلوی، مامون ایمن، متین اچل پوری، مجتبی حسین، محبوب راہی، محمد واثق ندیم، محمد ہاشم قدوائی، محمد عارف خان، محمد علی اثر، محمد ابراہیم سید، محمد اقبال قیصر، محمودالحسن اله آبادی، مشتاق جاوید، مظہر امام، ملک زادہ منظور احمد، ملک زاده جاوید، ملک بزمی، مناظر عاشق ہرگانوی، منظور وقار، منور جہاں، منور پیر بھائی، نذیر فتح پوری، زنجن سنگی تسنیم، نسرین نقاش، نیم بن عاصی، وحید انجم، یاسین قدوسی ، عقوب الرحمن۔۔۔۔ 
نذیر بنام سلطان اختر یہ ان خطوط کا مجموعہ ہے جو ڈاکٹر نذیر فتح پوری مدیر اسباق پونا نے سلطان اختر کے خطوط کے جواب میں یا بر بنائے رسم و راہ لکھے ہیں۔ میں اگر یہ کہوں کہ سلطان اختر کی زندگی اور ادب سے اگر ڈاکٹر نذیر فتح پوری کا نام نکال دیا جائے تو سلطان اختر کی ادبی سلطنت خطرے میں پڑ جائے گی۔ نذیر فتح پوری کے خطوط جو سلطان اختر کے نام لکھے گئے ہیں اپنے آپ میں ایک مکمل دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اتنے قیمتی ہیں کہ اگر سلطان اختر کے حصے میں صرف یہ ایک کتاب ہوتی تب بھی صدیوں سلطان اختر کا نام خطوط نگاری کے باب میں زندہ رہ سکتا ہے۔ اس لیے بھی کہ ڈاکٹر نذیر فتح پوری نے سلطان اختر سے جس والہانہ بے تکلفی ، بے خوف رسم و راہ اور محبت کا اظہار کیا ہے وہ کوئی ادبی روحانی باپ ہی اپنے ادبی روحانی بیٹے سے کر سکتا ہے اور وہ بھی ایک دوست کی طرح ۔ دو ایسے دوست جن کی عمروں کے درمیان ادب کے  ایک مکمل عہد کا فرق ہو۔ بہت کم دیکھا گیا ہے کہ اردو ادب میں ایسے رشتے بن پائے ہیں اور ٹک پائے ہیں۔ ایسا ہی ایک رشتہ ساحر لدھیانوی کا جاوید اختر کے ساتھ رہا ہے۔ جاوید اختر اس دور کے کامیاب نمائندہ نغمہ نگار تو ہیں ہی لیکن ان کو ایک اور حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ وہ ساحر لدھیانوی کے شاید اخری دوست بھی ہیں۔ 
کچھ ایسا ہی معاملہ سلطان اختر کا بھی ہے۔ سلطان اختر نے اپنے ادبی پیر و مرشد ڈاکٹر نذیر فتح پوری کا جو دامن پکڑا تو اسے بس پکڑ ہی لیا۔ سلطان اختر نے کبھی اپنے رشتوں میں کسی سے غیریت کا اظہار نہیں کیا۔ وہ کچھ دیر کے لیے کسی سے ناراض ہو جاتے ہیں پھر خود ہی دل کو سمجھا لیتے ہیں۔ 
شاید انہیں جاننے کی کوشش کرنا چاہیے کہ عشق میں معشوق بننا بہت مشکل کام ہے عاشق بننا آسان کام ہے۔ عاشق بننے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے ہر کوئی انسان بھی عاشق بن سکتا ہے بغیر کسی کم و کاست کے لیکن معشوق بننے کے لیے بے عیب ہونا بہت ضروری ہے نہ صرف بے عیب بننا بلکہ حسین اور خوبصورت بننا بھی۔ جب یہ تین خصوصیات کسی شخص میں آجاتی ہیں تو اس کے ناز و ادا پر لوگ فدا ہونے لگتے ہیں اور ناز و نعم اور نخروں کو برداشت کرنے میں اپنی سعادت سمجھنے لگتے ہیں ۔  مجھے یقین ہے ایک دور ایسا بھی آئے گا جس کی جھلک ہم آج سلطان اختر کی دوستی میں دیکھ لیتے ہیں کہ ان کے ناز و نعم ابھی سے برداشت کیے جانے لگے ہیں اس کے دو مطلب ہیں کہ سلطان اختر میں معشوق بننے کی کم از کم دو صلاحیتیں موجود ہیں وہ دو صلاحیتیں کون سی ہیں یہ بات تحقیق طلب ہے دوسری بات یہ ہے کہ سلطان اختر سے ہر کوئی دوستی کرنا چاہتا ہے انہوں نے اپنے پروٹوکال کا جال جانے انجانے اپنے ارد گرد اس طرح سے بنا ہوا ہے 
کہ یقین کرنا مشکل ہے۔ 
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم شاہ رخ خان کے بنگلے منت جس پر یہ تو لکھا ہے کہ زمین یہاں ختم ہوتی ہے شاہ رخ خان کا بنگلہ آپ باہر سے دیکھ تو سکتے ہیں اس کے پاس جا بھی سکتے ہیں اور اس کے گیٹ کے پاس کھڑے ہو کر تصویر بھی کھنچوا سکتے ہیں لیکن منت کا دروازہ صرف چند خاص لوگوں کے لیے کھلتا ہے اور وہ خاص لوگ بننا مشکل کام ہے  اسی طریقے سے سلطان اختر کی جھلکیاں ادبی ، ریاستی وقومی نیوز کے صفحات پر دیکھنے کو تو مل جاتے ہیں۔ 
اکثر ان کے پروگرامات، کانفرنس ، سیمینار مذاکروں اور مباحثوں کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ سلطان اختر ہے کون؟ سلطان اختر کے سولا پور کو پہنچنا آسان تو ہے لیکن سولاپور کے سلطان اختر تک پہنچنا مشکل ہے یہ بس ان کا ہی اختیار ہے۔ 
موجودہ ادب میں نذیر فتح پوری کا مقام ادب کے ان مشاہیر میں بڑا منفرد و ممتاز ہے جنہیں یہ شرف حاصل ہے کہ اگر وہ کسی شخصیت پر قلم اٹھا لیں تو وہ شخصیت ادب میں زندہ جاوید بن جاتی ہے بلکہ ادیب و نقاد اس شخصیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ  اس کی فنی حیثیت اور ادبی مقام کیا ہے؟! یہ بہت بڑا امر ہے کہ ڈاکٹر نذیر فتح پوری نے سلطان اختر پر بہت زیادہ لکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سلطان اختر ڈاکٹر نذیر فتح پوری کے ذہن دل دماغ اور ان کے ادب میں اپنی چھاپ قائم کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ ویسے بھی میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر نذیر فتح پوری کے ذہن میں کم از کم دو چیزیں ضرور محفوظ ہیں اور ہمیشہ جگمگاتی رہتی ہیں ایک تو تتلیاں ہیں اور دوسرے سلطان اختر۔ دونوں ہی وقفے وقفے سے اپنا نذیر فتح پوری کو احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ ان کے کہیں اس پاس ہی موجود ہیں دور نہیں۔ 
ویسے سلطان اختر نے بہت کوششیں کی ہیں کہ اسباق کسی حال میں بند نہ ہو اسباق جگمگاتا رہے اسباق روشنی بکھیرتا رہے اسباق تابندہ رہے اسباق زندہ رہے۔ اس بات کا احساس بھی ڈاکٹر نذیر فتح پوری کو بہت حد تک ہے اس بات کا اظہار بھی وہ اپنے خطوط میں کرتے رہتے ہیں۔ یہ خطوط رسمی لحاظ کے نہیں ہیں بلکہ غیر رسمی ہیں۔ بہت سارے خطوط میں نذیر فتح پوری نے اپنے واقعات سفری تجربات اور روز مرہ کے حوادث کو آپ بیتی کی طرح سلطان اختر سے شیئر کر لیا ہے۔ اس طرح ان کے تجربات بھی محفوظ ہو گئے اور سلطان اختر کے حصے میں بہت کچھ آ گیا جو ان کی زندگی کا سرمایہ ہے۔ ایسا رشتوں اور دوستی میں اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کسی کو اپنا ہمسفر اور ہمراز سمجھنے لگے ہمدرد گرداننے لگے۔ ہاں ہم نفس بننا سب کے بس کی بات نہیں۔  اس کے تقاضے اور امتحانات دوجے قسم کے ہوتے ہیں۔ 
ڈاکٹر نذیر فتح پوری نے سلطان اختر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اپنے والا ناموں میں نہ صرف پرو دیا ہے بلکہ اس کتاب کو پڑھ کر آپ سلطان اختر کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کا ادب، ان کی نفسیات، ان کے ذہن کی الجھنوں، ان کے ادب کے نشیب و فراز اور سلطان اختر کے وسیع اور گہرے دل کو بھی سمجھ جائیں گے۔ نذیر بنام سلطان اختر کوئی معمولی کتاب نہیں ہے اس لیے بھی کہ نذیر فتح پوری کوئی عام ادیب نہیں بلکہ ادب کا ایک مکمل جہان ہیں۔
 نذیر فتح پوری 105 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی ہر کتاب اپنے آپ میں ایک کوزے میں سمندر کی طرح ہے۔ وہ ہر کتاب پر محقق کی طرح ریسرچ کرتے ہیں اور وہ وہ باتیں ڈھونڈ نکالتے ہیں جو ادب کے ہر قاری اور ہر ناقد کے لیے نئی اور تازہ ہوتی ہیں۔ نذیر فتح پوری نے ہمیشہ اپنے رسالہ اسباق کے ذریعے اور اپنی کتابوں میں تر و تازہ اور نئے ادب کو تخلیق کرنے پرونے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
نذیر فتح پوری کا قلم اپنے عہد کے ادب کا ترجمان ہی نہیں بلکہ پیش رو ادیبوں اور ادبی تحریکوں کی مکمل تاریخ ہے وہ ہمیشہ ایک ادب کے نئے طالب علم کی طرح کام کرتے ہیں ان کا کام کسی ریسرچ اسکالر کسی جامعہ کے سٹوڈنٹ یا کسی ادب کے غواز کی طرح ادب کے سمندر کی گہرائیوں سے نئے نئے گوہر اور موتیوں کو چن لاتا ہے ۔ یہ بات سچ ہے اس میں کوئی شک نہیں اور مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تأمل بھی نہیں کہ نذیر فتح پوری نے اپنے خطوط میں سلطان اختر کو  دریافت کیا ہے۔ 

غلام ثاقب بیڑ  68493 92263

Post a Comment

أحدث أقدم

आपली भुमिका

...कारण आत्ताच्या काळात केंद्रातील, राज्यातील, महानगरपालिकेतील आणि आपल्या आजुबाजूच्या ग्रामपंचायतीतील सत्ताधारी पक्ष आणि विरोधीपक्ष यांची छुपी युती झालेली आपणांस दिसुन येत आहे. ते जनतेप्रती, जनहिताची कामे करताना दिसत नाहीत. फक्त आपल्याच लाभासाठी ते वरील सभागृहांमधे जाताना दिसत आहेत. या सभागृहांत जाताना ते लाखो करोडो रूपये खर्च करून जातात आणि तिथे ते आपल्या व आपल्या पोशिंद्या भांडवलदारांचीच कामे करताना दिसत आहेत. सद्यस्थितीत कोणताच विरोधीपक्ष सक्षमपणे काम करताना दिसत नाही. येत्याकाळात जनता सकारात्मक विचाराने एकजूट झाली पाहिजे म्हणून लोकशाहीच्या चौथ्या खांबाने म्हणजे पत्रकारीतेने जनतेप्रती संवेदना जागृत ठेवुन सक्षम विरोधीपक्षाची भुमिका निभावली पाहिजे.

WE ❤️ AHMEDNAGAR

फॉलोअर

किरण डहाळे

जगप्रसिध्द 'नगरी नगरी युट्युब चॅनेल'ला भेट देण्यासाठी 👆🏻 क्लिक करा.

प्रबोधनकार केशव सिताराम ठाकरे यांचे सर्व साहित्य येथे वाचा