ادب کی محفلیں صرف لفظوں کا تبادلہ نہیں ہوتیں، یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں ایک نسل کا حوصلہ دوسری نسل کے خوابوں کو آواز دیتا ہے۔ ’’ک سے کویتہ‘‘ ساہتیہ اُتسو جو 13 جولائی 2025 کو حیدرآباد میں منعقد کیا گیا تھا - وہ پروگرام میرے لیے کچھ ایسی ہی ساعتِ فیض ثابت ہوئی، جب مجھے پروفیسر ارون کمل جیسے عہد ساز شاعر و نقاد سے بالمشافہ گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔
سفید قمیص پر ہلکی زرد واسکٹ، جھلملاتی عینک کے پیچھے متانت سے دمکتے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ، پروفیسر ارون کمل کی شخصیت پہلی نظر میں ہی دل پر اثر کرتی ہے۔ ان کی نشست و برخاست، گفتگو کا شائستہ انداز اور حاضرین پر ان کا بے ساختہ رعب دیکھ کر یہ احساس اور گہرا ہو جاتا ہے کہ کچھ لوگ واقعی اپنی تحریروں جیسے ہوتے ہیں - سادہ، سچے اور باوقار۔
ارون کمل ہندی ادب میں ترقی پسند فکر کے روشن چراغ ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ’’اپنی کیول دھر‘‘، ’’ثبوت‘‘، ’’نئے علاقے میں‘‘ اور ’’پوٹلی میں سنسار‘‘ اُن کے اسلوب کی زندہ مثال ہیں، جن میں کہیں شہری زندگی کی تھکن ہے، کہیں سیاست کی ستم ظریفی، اور کہیں عام آدمی کی اَن کہی تکلیف۔ ناگرجن اور شمشیر جیسے شعرا کے تراجم کے ذریعے انہوں نے ہندی تنقید اور تخلیقی ادب کو ایک ساتھ وسعت دی۔ 2019 تک پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے انہوں نے کتنی ہی نسلوں کو سوچنے، لکھنے اور اختلاف کی جرات سکھائی۔
اس ادبی جشن میں ان کا خطاب ’’کویتا کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے تھا۔ ان کا ایک جملہ گویا میرے دل میں نقش ہو گیا:
"کویتا اختراعی طاقت کو بڑھاتی ہے اور ہر طرح کے اکیلے پن کا علاج ہے۔"
خطاب کے بعد جب سامعین سے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک آواز ابھری
"شعراء اور ادباء کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ سچ لکھیں تو چھپتا نہیں، اور اگر چھپ جائے تو اتنا کڑوا لگتا ہے کہ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔"
پروفیسر صاحب نے ایک لمحہ توقف کے بعد کہا:
"ادیب یا شاعر کی حالت کانٹوں میں الجھے پرندے کی طرح ہے - اگر الجھا رہے تو زخمی، اگر نکلنے کی کوشش کرے تو بھی زخمی۔ لیکن قلم کو رُکنے مت دیجئے۔ اگر جیل جانا پڑے تو جائیے۔ دیکھیے، تاریخ نے کیسے کیسے شعرا کو بند کر کے دیکھ لیا، مگر ان کے الفاظ کو کون قید کر سکا؟ آپ بھی لکھتے رہیے، ہم آپ سے جیل میں ملنے آئیں گے!"
ان کے اس بے باک اور سراپا حوصلہ افزا لفظوں نے میرے دل میں جیسے بجھتی ہوئی چنگاری کو پھر سے شعلہ بنا دیا۔ حال ہی میں میں نے ایک افسانہ تحریر کیا تھا - محض ایک تخلیق، لیکن کچھ لوگوں نے اسے اپنی زندگی کی آئینہ داری سمجھ کر اس کی اشاعت ہی رکوا دی۔ اس دن احساس ہوا کہ سچ لکھنے کا سفر کتنا کٹھن اور تنہا ہوتا ہے۔
مگر پروفیسر ارون کمل کی اس بات نے میرا خوف چھین لیا اور حوصلہ دے دیا کہ لفظوں کو کبھی زنجیر میں نہیں جکڑا جا سکتا۔ میں نے وہیں دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب جو لکھنا ہے، وہ پوری ایمانداری اور بے خوفی سے لکھنا ہے۔ چاہے ان لفظوں کی سچائی مجھے زنجیروں سے آشنا کرے یا سنگین دروازوں کے پیچھے پہنچا دے - اگر قلم میں سچائی ہو تو پھر وہ ہر قید سے آزاد رہتا ہے۔ سچ لکھنے والوں کو شاید قید کیا جا سکتا ہے، ان کے لفظوں کو نہیں۔ اب جو لکھوں گی، وہ پورے عزم کے ساتھ لکھوں گی -کیوں کہ سچ کا مقدر ہمیشہ آزاد ہونا ہے۔
سیمیناروں کی اصل دین یہی ہے - ہم زندہ کتابوں کو جیتے جاگتے دیکھتے ہیں، ان سے سیکھتے ہیں، اپنے ڈگمگاتے حوصلوں کو سنبھالتے ہیں۔ پروفیسر ارون کمل سے یہ یادگار ملاقات مجھے یاد دلاتی رہے گی کہ قلم کی پرواز کو کانٹوں کی باڑ روک نہیں سکتی - اور شاید انہی زخموں سے ہی لفظوں کی روشنی پھوٹتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
إرسال تعليق